Mere Pita ji Master Sita Ram

मेरे पिता मास्टर सीताराम का जन्म पानीपत से 13 किलोमीटर दूर एक गांव बली कुतुबपुर में 1 जनवरी 1908 को एक किसान परिवार में हुआ था।   घर के हालात ऐसे नहीं थे कि वह पढ़ सकते, परंतु उनमें यह तीव्र इच्छा थी कि वह पढ़ लिख कर एक अध्यापक बने। इसी इच्छाशक्ति के बलबूते उन्होंने प्राइमरी अपने गांव के निकट के एक स्कूल से कर  के पानीपत के जैन हाई स्कूल में प्रवेश लिया । वे लगभग  13 किलोमीटर दूर पैदल चलकर स्कूल में आते और जाते थे । यही उनकी मुलाकात अपने प्रिय उस्ताद तथा स्कूल के हेडमास्टर डॉo केo सीo सेन से हुई । उन्होंने  इस बालक की कुशाग्र बुद्धि को जांचा और फिर दसवीं करके उन्हें अलीगढ़ मुस्लिम कॉलेज में उर्दू, अरबी और फारसी पढ़ने के लिए भेजा । यह बालक भी इन तीनों भाषाओं में अदीब- ए- आलिम, फाजिल की शिक्षा अब्बल दर्जे में प्राप्त करके वापस लौटा । उस्ताद डॉo के सी सेन ने इस बच्चे को अपने ही स्कूल में इन्हीं भाषाओं का अध्यापक नियुक्त कर दिया और मेरे पिता ने सन 1928 से 1948 तक बतौर उस्ताद काम किया।
     आज उर्दू दिवस है आज के दिन जहां तमाम उर्दू भाषा- भाषियों को मुबारक है वहीं अपने पिता को भी खिराज- ए- अकीद्त पेश करता हूं कि उन्होंने इस भाषा के प्रति  अपना सम्मान रखा ।
Ram Mohan Rai
   میرے والد ماسٹر سیتارام یکم جنوری 1908  کو پانی پت سے 13 کلومیٹر دور ایک گاؤں بالی قطب پور میں ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ گھر کے حالات ایسے نہیں تھے کہ وہ تعلیم حاصل کر سکے لیکن اس کی شدید خواہش تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر استاد بنیں۔ اس وصیت کی وجہ سے اس نے پرائمری اپنے گاؤں کے قریب ایک اسکول سے کی اور پانی پت کے جین ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ وہ تقریباً 13 کلومیٹر دور اسکول جانے اور جانے کے لیے آتا تھا۔ یہیں اس کی ملاقات اپنے پیارے ماسٹر اور اسکول کے ہیڈ ماسٹر ڈاکٹر کیو سیو سین سے ہوئی۔ اس نے اس بچے کی ذہانت کا تجربہ کیا اور پھر دسویں کے بعد اسے علی گڑھ مسلم کالج میں اردو، عربی اور فارسی پڑھنے کے لیے بھیج دیا۔ یہ بچہ بھی ان تینوں زبانوں میں ادیب العلم، فاضل کی تعلیم حاصل کر کے قابل درجہ واپس آیا۔ استاد ڈاکٹر کے سی سین نے اس بچے کو اپنے اسکول میں ان زبانوں کا استاد مقرر کیا اور میرے والد نے 1928 سے 1948 تک استاد کے طور پر کام کیا۔
      آج یوم اردو ہے، جہاں تمام اردو زبان بولنے والے اس دن پر خوش ہیں، وہیں میں اپنے والد محترم کو خرج عقیدہ بھی پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اس زبان کی عزت کا خیال رکھا۔
 رام موہن رائے

Comments

Popular posts from this blog

Justice Vijender Jain, as I know

Aaghaz e Dosti yatra - 2024

मुजीब, गांधी और टैगोर पर हमले किस के निशाने पर